2025-08-15 HaiPress
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:259
عمر کی دوسری زندگی؛
پینتیس چالیس منٹس کے بعد سٹاف آپریشن تھیٹر سے باہر آئی اس کے ہاتھ میں پکڑی ٹرے میں اپنڈیکس کے رکھے کچھ اجزاء دکھائے۔ میں نے پوچھا؛”سٹاف میرا بیٹا کیسا ہے؟“ وہ بولی؛”اللہ کا شکر ہے۔ ابھی ڈاکٹر آپ کو بتاتے ہیں۔“ یہ سن کر میری جان میں جان آ ئی۔ مشتاق اور ادریس بھائی کے ہاتھ میرے کندھے پر تھے۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر نجم آ ئے اور کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے؛”gentle man your son has second life. میرے تجربے کے مطابق اس بچے کی اپنڈیکس پھٹے دس بارہ گھنٹے ہو چکے تھے۔ یہ بچہ کیوں بچ گیا، معجزہ تھا۔ now relax,Umar will remain in ICU till this morning. وہ یہ کہہ کر چلے گئے اور میں آج تک ان کے لئے دعا گو ہوں۔ میرے لئے وہ فرشتہ تھے۔ سی ایم ایچ کے وہ 2گھنٹے صدیوں پر محیط تھے۔ مشتاق، ادریس بھائی اورررزاق اس کڑے وقت میں میرے لئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے تھے۔ اللہ انہیں اجر دے۔ آمین۔ رزاق ادریس بھائی کے ساتھ گھر چلا گیا اور عظمیٰ کو اطلاع دی کہ اللہ نے ہمارے بیٹے کو دوسری زندگی بخشی تھی۔ عمر کو آئی سی یو منتقل کر دیا گیا۔عظمیٰ بھی صوفی کے ساتھ ہسپتال چلی آئی۔ کچھ دیر اپنے لخت جگر کو دیکھ کر گھر چلی گئی۔ رات بھر میں عمر کے سرہانے بیٹھا رہا۔ وہ ابھی بھی anaesthesia کے زیر اثر تھا۔ اس کے ننھے سے ہاتھ پر”برنو لا لگا تھا۔ رات 2 بجے میرے اور عظمیٰ کے والد بھی پہنچ گئے۔ ان کے آنے سے بہت تسلی ہو گئی۔ وہ کچھ دیر ہسپتال رہے۔ والد نے مجھے3 ہزار روپے دئیے کہ بیٹا رکھ لو۔ شاید تمھیں ضرورت ہو۔ صوفی نذیر ان دونوں کو گھر چھوڑ آیا۔ میں رات بھر عمر کا ہاتھ تھامے بیٹھا رہا کہ کہیں ہاتھ ہلانے سے اُسے سوئی کی چبھن نہ ہو۔ اُس نہ ختم ہونے والی رات میں اللہ کے فضل و کرم کا شکر ہی ادا کرتا رہا۔ اللہ کو ویسے بھی دو باتیں بہت پسند ہیں ایک شکر اور دوسرا صبر۔
مجھے اپنی آ نکھ میں لگی چوٹ یاد آ گئی اور یہ احساس بھی جاگ گیا کہ کیسے میرے ماں باپ نے تکلیف کے وہ دن گزارے ہوں گے۔ماں باپ اپنی اولاد کے لئے کیا کچھ کرتے ہیں بچوں کو اس کا احساس تبھی ہوتا ہے جب وہ خود ماں باپ بنتے ہیں۔اگلے روز 10 بجے ڈاکٹر صاحب آئے۔ عظمیٰ بھی ہسپتال آ چکی تھی۔انہوں نے عمر کو چیک کیا اور بولے ماشا اللہ زخم بالکل ٹھیک ہے۔ ہم آپ کو چھٹی دے رہے ہیں۔ اگلے2 روز تک آپ کو پٹی کروانے آنا ہو گا۔“ بل بنوایا توغالباً 7 ہزار روپے تھا۔ میرے لئے یہ بڑی رقم تھی۔میں ڈاکٹر نجم کے پاس گیا اور درخواست کی؛”سر! میں اتنا بل افورڈ نہیں کر سکتا۔“ بغیر کچھ کہے سی ایم ایچ کے اکاؤٹنٹ سے کہا؛”کہ میری آپریشن فیس مت لو۔“یوں 2500 روپے کم ہو گئے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی عظمت تھی۔ وہ فرشتہ سیرت انسان تھے۔ آپریشن کے لئے اپنی نیند خراب کرکے ہسپتال پہنچے تھے۔کم ڈاکٹر ہی اس مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں۔ اباجی اگلے روز میرے ساتھ بازار گئے اور عمر کو الیکٹرونک پیانو دلایا جو مدت تک عمر کا پسندیدہ رہا۔ یہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔بزرگوں کی نشانیاں دل کا سکون ہو تی ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
08-15
08-15
08-15
08-15
08-15
08-15
08-15
08-15
08-15
08-15