فرنٹ پیج سلامتی بخش زندگی کی روشنی ٹیکنالوجی آنلاین مالی چانال جرانیلیسم

خیر پور انگریزوں کے زمانے میں آزاد ریاست تھی، حکمران تالپور کے نواب تھے، پاکستان بن جانے کے بعد نوابوں نے ریاست کو پاکستان میں شامل کر لیا

2025-05-26 IDOPRESS

مصنف:محمدسعیدجاوید


قسط:137


خیر پور انگریزوں کے زمانے میں ایک آزاد ریاست ہوتی تھی جہاں کے حکمران تالپور کے نواب ہوتے تھے۔ پاکستان بن جانے کے بعد ان نوابوں نے اپنی ریاست خیرپورکو پاکستان میں شامل کر لیا جو ون یونٹ بننے کے بعد مغربی پاکستان کا حصہ بن گئی تھی اور پھراس کے ٹوٹنے کے بعد صوبہ سندھ کا حصہ بن گئی۔ان نوابوں کے بنائے ہوئے محلات، جن میں فیض محل بھی شامل ہے، آج بھی اسی آن بان اور شان سے موجودہیں اور سارے پاکستان سے سیاح ان عمارتوں کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے خیرپور کا رخ کرتے ہیں۔یہاں عبدا لطیف بھٹائی کے نام سے ایک یونیورسٹی کے علاوہ بلند پائے کے سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں۔یہ سندھ میں کاروباری سرگرمیوں اور صنعت و حرفت کا بھی ایک بڑا مرکز ہے۔


روہڑی جنکشن


روہڑی، پاکستان ریلوے کا ایک انتہائی اہم جنکشن ہے اور اس نے پاکستان میں ریلوے کی ترویج اور استحکام میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ قریبی شہر سکھر ریلوے کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر زبھی ہے۔ یہاں پہنچ کرتمام گاڑیوں خصوصاً مرکزی لائن پر جانے والی مسافرگاڑی کا عملہ تبدیل ہو جاتا ہے۔اس ریلوے لائن پر چلنے والی تمام گاڑیاں یہاں لازماً ٹھہرتی ہیں۔


جب تک لینس ڈاؤن پْل نہیں بنا تھا تو پشاور سے کراچی یا کوئٹہ جانے والی ریل گاڑی یہاں پر آ کر رک جاتی تھیں پِھرانھیں سٹیمروں کے ذریعے دریا پار کروایا جاتا تھا، جہاں سے وہ اپنی اپنی منزلوں کی طرف اپنا سفر جاری رکھتی تھیں - ویسے تواس جنکشن سے اندرون سندھ میں برانچ لائنوں پر چلنے والی گاڑیاں آتی جاتی رہتی ہیں تاہم اسے کراچی۔ پشاور اور روہڑی۔ کوئٹہ۔ چمن کے مرکزی راستوں پر ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ یہاں سے دریا پار کرتے ہی سندھ کا تیسرا بڑا شہر سکھر آجاتا ہے۔ جس کی اہمیت جا بجا بیان کی گئی ہے۔ پاکستان ریلوے کا سب سے طویل پلیٹ فارم بھی روہڑی جنکشن پر ہی واقع ہے جس کی لمبائی آدھ کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔


ڈھرکی


ڈھرکی مین لائن پر سندھ کا آخری بڑا اسٹیشن ہے جو بدقسمتی سے محکمہ ریلوے اور مسافروں کے لیے خوف اور دہشت کی علامت بن چکا ہے کیونکہ پاکستان میں ریل گاڑیوں کے چار پانچ بدترین حادثات اسی اسٹیشن پر یا اس کے آس پاس ہی ہوئے جن میں سیکڑوں لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔یہ علاقہ اب ایک بڑا صنعتی زون بن چکا ہے جہاں کھاد، پٹرولیم کے بڑے کارخانوں کے علاوہ کئی نجی بجلی گھر بھی لگائے گئے ہیں۔ آس پاس کی زمین بھی بہت زرخیز ہے اور یہاں کپاس، گندم، اور گنے کی فصلیں اگائی جاتی ہیں۔ اس علاقے میں متعدد بڑے صنعتی کارخانے ہونے کی وجہ سے سارے پاکستان سے ہی ملازمت کے لیے آئے ہوئے لوگ یہاں قیام پذیر ہیں۔جس کی وجہ سے یہاں اچھے بازار،شاپنگ مال اور کلب وغیرہ بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ بہترین نجی تعلیمی ادارے بھی یہاں موجود ہیں۔


(جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
لنکس:
ٹیکنالوجی فرنٹیئر      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap