2025-08-11 HaiPress
مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:123
16 جون 1994ء کو پاکستان مسلم لیگ (ن) وکلاء فورم پنجاب کا ایک ہنگامی اجلاس زیر صدارت محمد زمان قریشی چیف آرگنائزر منعقد ہوا جس میں میاں محمد نواز شریف صدر پاکستان مسلم لیگ کی کار پر حملہ کے واقعہ کی پرزور مذمت کی گئی۔ یہ واقعہ پیپلز پارٹی اور چٹھہ لیگ، حکومتوں کی نااہلی اور سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ اس اجلاس کی پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ جو حکومت حزب اختلاف کے لیڈر کی حفاظت کرنے کے اہل نہ ہو اْسے حکومت کرنے کا استحقاق نہیں ہے۔ اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اس واقعہ کی ہائی کورٹ کے جج سے تحقیقات کروائی جائے اور اصل حقائق عوام کے علم میں لائے جائیں۔ اجلاس میں کرنل مشتاق احمد طاہر خیلی، رانا امیر احمد خاں، ملک نصیر اسلم، عبدالحمید طاہر قصوری، سید سہیل احمد، چودھری عبدالرشید مونن، محمد شریف چوہان، رشید احمد اشغب، رانا مشہود احمد خاں اور دوسرے وکلاء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
20 اگست 1994 ء قرارداد بابت عدالت عالیہ میں جیالے ججوں کا غیر آئینی تقرر
20 اگست کو میں نے پیپلز پارٹی کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کے غیر آئینی تقرر کے خلاف، لاہور ہائی کورٹ بار سے ذیل قرارداد منظور کروائی:
”بینظیر بھٹو کی حکومت نے 1993ء میں دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے کچھ عرصہ بعد لاہور ہائی کورٹ میں 20 نئے ججوں کو بطورایڈیشنل جج تعینات کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی حکومت کا یہ اقدام پاکستان کی عدلیہ پر بم گرانے کے مترادف ہے کیونکہ تین چار تقرریوں کو چھوڑ کر باقی تمام جج جیالے کارکنوں میں سے لئے گئے ہیں۔ اس طرح تقرریاں آئین کے آرٹیکل 193 میں طے کردہ میرٹ کی صریحاً خلاف ورزی، اہلیت کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف سیاسی وابستگیوں کے پیشِ نظر کی گئی ہیں۔ آئین کے تحت صرف ایسے فعال وکلاء کو جج مقرر کیا جا سکتا ہے جو گزشتہ دس برس تک ہائی کورٹ میں مسلسل وکالت کرتے رہے ہوں اور اعلیٰ عدلیہ کے سامنے پیش ہوتے رہے ہوں، نہ کہ ہائی کورٹ میں پریکٹس کا لائسنس لینے کے بعد آپ ہائی کورٹ میں کبھی پیش ہی نہ ہوں۔ آپ نے پریکٹس ہی نہ کی ہو بلکہ آپ نے اور کوئی کاروبار شروع کردیا ہو، ملک سے باہر چلے گئے ہوں۔ صرف نچلی عدالتوں میں ہی پیش ہوتے رہے ہوں۔ ایسے لوگوں کی تقرری غیر آئینی قرار دی جا سکتی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ میں اپنی مرضی کے جج مقرر کر کے حکومت، انتظامیہ عدلیہ پر غلبہ حاصل کرنے اور اپنی مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سینیارٹی کی روایت کو توڑ کر چار نمبر کے چیف جسٹس لگانا، ریٹائرڈ ججوں کو چیف جسٹس مقرر کرنا، بے لاگ اور بلند پایہ ججوں اور چیف جسٹس ہائی کورٹ کو ٹرانسفر کر کے شریعت بنچوں میں تعینات کر دینا، ذہنی طور پر ایسے پست قامت وکیلوں کو اعلیٰ عدلیہ کے جج مقرر کرنا جنہیں اگر سول ججی کے امتحان میں بٹھایا جائے تو فیل ہو جائیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج مقرر کرتے وقت ان کے کردار، اہلیت، موزونیت کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کی سیاسی وابستگیوں کے باعث ان کو جج لگانا، عدالتی وقار کو ملیامیٹ کرنے اور معاشرہ کو ناانصافی سے دوچار کرنے اور آئین و میرٹ کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
08-11
08-11
08-11
08-11
08-11
08-11
08-11
08-11
08-11
08-11