فرنٹ پیج سلامتی بخش زندگی کی روشنی ٹیکنالوجی آنلاین مالی چانال جرانیلیسم

ا ندھوں میں کانا راجہ والی بات، میری حماقت نے سب کا بھرم رکھ لیا،کبھی بسیں وقت مقررہ پرمنزل پرپہنچا کرتی تھیں، سفر بھی نسبتاً سستا اور آرام دہ ہوتا

2025-08-11 HaiPress

مصنف:شہزاد احمد حمید


قسط:255


جی ٹی روڈ کبھی گجرات شہر سے گزرتی تھی اور جی ٹی ایس چوک پر گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کا بس اڈا تھا۔(لالہ موسیٰ کے لئے ویگن بھی یہیں سے چلا کرتی تھی۔) کبھی یہ بسیں وقت مقررہ پر منزل سے روانہ ہو کر منزل پرپہنچا کرتی تھیں۔ سفر بھی نسبتاً سستا اور آرام دہ ہوتا۔ افسوس ہماری بے حسی نے اس ٹرانسپورٹ سروس کا بھی نام و نشان مٹا دیا۔اس اڈے کے قریب چند سرکاری دفاتر غالباً محکمہ شاہرات کے تھے اور ان کی بغل میں ایک بڑی مارکیٹ تھی جہاں گجرات شہر کا اکلوتا”چائینز ریسٹورنٹ“ہوا کرتا تھا۔ اس دور میں ابھی چائینز کھانے اتنے مقبول نہ تھے لیکن ہمیں لاہور میں رہتے ان کھانوں کا سواد لگ گیا تھا چنانچہ زبان کا سواد لاہوری رکھنے کے لئے 2 ماہ میں ایک بار عظمیٰ، میں اور عمر، احمد اس ریسٹورنٹ چلے آتے اور زبان کے ذائقہ کو چائینز کھانوں سے بدل لیتے تھے۔ عمر اور احمد بھی ان کھانوں کے شوقین تھے۔اس دورمیں یہ ہماری بڑی تفریح تھی جبکہ دوسری تفریح مشتاق کے گھر ہر دوسرے ہفتے کھانا کھاتے۔ بھابھی خلوص سے بھرپور ذائقہ والا کھانا کھلاتی تھی جس میں لہسن والے چاولوں کا تو جواب ہی نہ تھا۔ واہ رے وقت۔


”چوہدو“گاؤں؛


جی ٹی روڈ کھاریاں کینٹ ریلوے پھاٹک سے ذرا پہلے اور سکائی ویز رسٹورنٹ کی بغل میں ”چوہدو“ نامی گاؤ ں تھا۔ ہم نام بگاڑنے اور اس کا غلط مطلب یا اپنے مطلب کے معنی نکالنے میں بھی ثانی نہیں رکھتے۔گو آج بھی ایسا ہی ہے۔ ڈائریکٹر سی ڈی ہیڈ کواٹرز رانا افضال بمعہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر زرین شوکت، راجہ یعقوب اس گاؤں وزٹ پر آئے۔ میں بھی ہمراہ تھا۔ یہاں یونیسف کے ہینڈ پمپس کے حوالے سے کمیونٹی ملاقات تھی۔ ملاقات بعد میٹنگ۔ ڈائریکٹر سی ڈی بضد تھے کہ زرین شوکت گاؤں کا نام بتائیں۔وہ انکاری رہیں۔ بعد میں رانا افضال نے خود ہی گاؤں کا نام لے کر ان سے پو چھا تو زرین کہنے لگیں ”ہاں ایسا ہی نام تھا۔“افسروں کی ذھنیت کا اندازہ خود ہی لگا لیں۔


سنسکرت کا لفظ؛


مجھے کھاریاں آئے دو تین سال ہوئے تھے کہ ڈی جی لوکل گورنمنٹ بلوچستان(یہ سابق فوجی اور سی ایس پی افسر تھے۔) پنجن کسانہ یونین کونسل یونیسف پروگرام کی سڈی کے لئے آ ئے۔ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ گوجرانوالہ کیپٹن(آر) شاہد اشرف تارڑ(بہت اچھے سی ایس پی افسر تھے۔ چیئرمین این ایچ اے اور فیڈرل سیکرٹری اورنگران وفاقی وزیر بھی رہے۔میں کئی سال بعد ان سے اپنی ایک اے سی آر لکھوانے اسلام آ باد آ یا۔ چٹ بھیجی فوراً ہی بلا لیا۔ میں نے پوچھا؛”سر! پہچان لیا۔“ بولے؛”شہزاد نہ میں بوڑھا ہوا ہوں اور نہ ہی تیری شکل بدلی ہے۔چائے پلائی، اے سی آ ر لکھی۔ کہا تم بھجوا دیتے تب بھی میں لکھ کر واپس بھیج دیتا۔) اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر راجہ یعقوب بھی ہمراہ تھے۔ میں نے پروگرام پر بریفنگ دی اور”رکھ پبی سرکار“ کا لفظ میں دو تین بار استعمال ہوا۔ ڈی جی لوکل گورنمنٹ بلوچستان نے اچانک پوچھا؛”رکھ پبی سرکار سے کیا مراد ہے۔“ مجھے معلوم نہ تھا۔ بس حماقت سوجھی جواب دیا؛”سر! سنسکرت زبان کے اس لفظ کا مطلب؛ رکھ سے مراد”گھنا“اور پبی سے مراد ”جنگل“یعنی گھنا جنگل۔ کبھی یہ سارا علاقہ جنگل تھا۔“اندھوں میں کانا راجہ والی بات۔ میری اس حماقت نے سب کا بھرم رکھ لیا تھا۔ گیا۔ بعد میں یہ حماقت صداقت ہی نکلی تھی۔ (جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔
لنکس:
ٹیکنالوجی فرنٹیئر      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap