2025-07-30 IDOPRESS
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:202
یہاں اپنے وقتوں کا بڑا مشہور جنکشن ہوا کرتا تھا۔یہاں سے ایک بہت ہی اہم لائن نکلتی تھی جو ژوب (پرانا نام فورٹ سنڈیمن) تک جاتی تھی جس کا فاصلہ کوئی 294 کلومیٹر بنتا تھا۔ یہ پٹری نیرو گیج یعنی2فٹ 6 انچ چوڑی تھی جسے اس وقت ایشیا ء بھر بلکہ دنیا میں نیرو گیج کی سب سے طویل ریلوے لائن تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ لائن دریائے ژوب کے ساتھ ساتھ تعمیر کی گئی تھی اس لیے اسے ژوب ویلی ریلوے بھی کہا جاتا تھا۔
یہاں چلنے والی گاڑی کے انجن اور ڈبے خاص طور پر اسی لائن کے لیے بنوائے گئے تھے جو عام گاڑیوں سے کوتاہ قد اور قدرے چھوٹے ہوتے تھے۔ان مسافر گاڑیوں کے ڈبوں میں ایک خاص بات یہ تھی کہ ان کا اندرونی حصہ اور چھتیں بڑی مہنگی لکڑی سے بنوائی گئی تھیں اور کنکریٹ کے فرش پر بھی ماربل کی اضافی ٹائلیں نصب کی گئی تھیں، شاید یہ موسم کی شدت سے بچنے کے لیے محکمہ ریلوے کی ایک کاوش ہو۔
یہ لائن 1929ء میں مکمل ہوگئی تھی، اس کا پہلا حصہ 1920ء میں بوستان جنکشن سے شروع ہو کر 1927ء میں قلعہ سیف اللہ پرختم ہوا۔ دوسرے مرحلے میں اس لائن کو ژوب یعنی فورٹ سنڈیمن تک پہنچا دیا گیا۔ یوں چھوٹے گیج کی یہ لائن مکمل ہوئی تو اس پر گاڑیاں چلنا شروع ہو گئیں۔ ابھی انگریز حکومت کا منصوبہ اس لائن کو ژوب سے بنوں تک لے جانے کا تھا لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، اور اس منصوبے کو ترک کر دیا گیا۔
اس لائن پر 11 اسٹیشن بنائے گئے تھے جن میں ایک ”کان مہتر زئی“اسٹیشن بھی ہے جسے پاکستان میں ریلوے کا سب سے بلند ترین اسٹیشن ہونیکا اعزاز بھی حاصل ہے، اس کی بلندی تقریباً 7300 فٹ ہے جو پاکستان کے مشہور سیاحتی مقام مری کے تقریباً برابر ہی ہے۔ موسم سَرما میں شدیدبرف باری کی وجہ سے اس مقام پر یہ ریلوے لائن کچھ عرصے کے لیے بند ہو جاتی تھی۔
وہاں سے آگے چل کر اس لائن پرمسلم باغ اور قلعہ سیف اللہ بھی کافی مشہور اسٹیشن ہیں۔ اس سارے علاقے اور ژوب میں کرومائٹ اور میگنیشیم کی بہت بڑی بڑی کانیں ہیں۔ جن کو خصوصی طور پر اس لائن پر چلنے والی مال گاڑیوں پر پہلے بوستان جنکشن لایا جاتا تھا اور پھروہاں سے دوسری بڑے گیج پر چلنے والی مال گاڑی میں منتقل کرکے پاکستان کے مختلف صنعتی اور تجارتی علاقوں میں بھیجا جاتا تھا۔اسی طرح قلعہ سیف اللہ اپنے سیبوں اور انگوروں کے باغات کی وجہ سے بھی بہت شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے انگوروں کی پاکستان اور بیرون ملک بہت مانگ ہے۔
اس ریلوے لائن کے نیرو گیج ہونے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ صرف اسی لائن پر واقع آس پاس کے علاقوں کے ہی مسافر اور سامان بغیر گاڑی تبدیل کئے سفر کر سکتے تھے، اس کے علاوہ ملک کے کسی بھی حصے، جیسے کوئٹہ، چمن اور سکھر وغیرہ جانے کے لیے بوستان جنکشن پر سامان کو اتار کر لازمی طور پر گاڑی بدلنا پڑتی تھی جو مسافر اور مال گاڑیوں کے لیے یکساں طور پر ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا، کیونکہ آگے پاکستان کی تمام گاڑیاں براڈ گیج پٹریوں پر ہی چلتی تھیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
07-30
07-30
07-30
07-30
07-30
07-30
07-30
07-30
07-30
07-30