2025-08-07 HaiPress
مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:119
ان دنوں مسلم لیگی وکیلوں میں خواجہ محمد شریف، چودھری محمد فاروق، خواجہ محمود احمد، محمدزمان قریشی، خواجہ ذکی الدین پال، کرنل (ر) مشتاق علی طاہر خیلی اور دیگر شامل تھے۔ مسلم لیگ (ن) لائرز فورم کا حصہ بن جانے کے بعدمیں کرنل (ر) مشتاق طاہر خیلی کے ہمراہ مسلم لیگ ہاؤس ڈیوس روڈ جانے لگا اور اجلاسوں میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کر دیا۔ مسلم لیگ ہاؤس میں ان دنوں میاں عبدالستار ایم پی اے، خواجہ ریاض محمود، غلام حیدر وائیں، رمضان چودھری اور دیگر رات گئے تک موجود رہتے تھے۔
1991-92میں میاں محمدنواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے۔ ان دنوں یورپ میں کوسووو کے مسلمانوں پر سرب مظالم کا سلسلہ جاری تھا۔چنانچہ راقم الحروف نے کوسووو کے مظلوم عوام کے مطالبہ حق خودارادیت کی حمایت میں درج ذیل قرارداد کو ہائی کورٹ بار کی جنرل باڈی کے اجلاس میں پیش کر کے متفقہ طور پر پاس کروایا:
متن قرارداد:”قرار داد بابت کوسوووکے عوام کے حق خودارادیت کی حمایت“ کوسووو کے دارالحکومت پرسٹینا سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق کوسووو کے مسلمانوں پر سرب مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ کوسووو یورپ میں مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ ہے جو ان دنوں سربیا کے ظلم کا اسی طرح شکار ہے جس طرح بھارت کشمیری مسلمانوں پر گزشتہ 43 سال سے مسلسل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ اسی طرح یوگوسلاویہ کے سرب،بوسنیا کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرنے کے بعد کوسووو کے مسلمانوں کو ننگی بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کی طرح کوسووو کے حریت پسند عوام بھی اپنی شناخت اور حقِ خودارادیت کے لئے برسرپیکار ہیں۔
کوسوو و قدیم زمانے ہی سے ایک خودمختار ریاست ہے۔ 1389ء میں خلافتِ عثمانیہ نے بھی اسے اپنی سلطنت میں شامل کرنے کے بعد اس کی شناخت اور خودمختاری بحال رکھی تھی۔ حتیٰ کہ سابق یوگوسلاویہ کے دستور میں بھی کوسووو کو ایک خودمختار ریاست تسلیم کیا گیا اور دوسری ریاستوں کی طرح یہ بھی قانونی حق دیا گیا کہ وہ جب چاہے اپنا قانونی حق استعمال کر سکتی ہے۔ لیکن جتنی قدیم تاریخ کوسووو کی خودمختاری کی ہے اسی قدر طویل تاریخ سربوں کی اس پر ظلم ڈھانے، قبضہ جمانے کی ہے۔ سربوں کو باہر سے لا کر کوسووو میں آباد کرنے کا سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے حتیٰ کہ 1961ء تک ان کی آبادی 18 فیصد تک پہنچائی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ ہجرت کر کے ترکی یا البانیہ چلے جائیں۔ 1968ء میں مسلمانوں کے مطالبہ پر مارشل ٹیٹو نے کوسووو کو ایک خودمختار صوبے کا درجہ تو دے دیا جس سے مسلمانوں کو یہ فائدہ ہوا کہ البانوی زبان جس پر پہلے پابندی لگا دی گئی تھی اسے دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہو گئی لیکن 1981ء میں سربوں کی جانب سے کوسووو کے مسلمانوں کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کیا گیا۔ سینکڑوں مسلمانوں کو شہید اور زخمی کر دیا گیا، جس کے بعد حالات تیزی سے خراب ہوتے گئے۔
1989ء میں متعصب کمیونسٹ سرب لیڈر سلوبوڈن مائلو سیوک نے کوسووو کی خودمختار حیثیت ختم کر دی۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ مسلمانوں کو حکومتی ملازمتوں سے نکالا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کے لئے البانوی زبان میں ریڈیو، ٹی وی کی نشریات بند کر دی گئیں اور پرسٹینا یونیورسٹی میں البانوی زبان میں تعلیم دینے پر پابندی لگا دی گئی۔ سربوں کے ا ن متعصبانہ اور امتیازی اقدامات نے آزاد مسلم عوام میں سرب اقلیت کے چنگل سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ایک نئی تڑپ اور لہر پیدا کر دی اور انہوں نے 11 ستمبر 1991ء کو کوسووو کی آزادی کا اعلان کر دیا اور 26 سے 29 ستمبر 1991ء ایک بھرپور عوامی ریفرنڈم میں اس اعلانِ آزادی کی توثیق کی گئی۔ مئی 1992ء میں باقاعدہ الیکشن کے ذریعے مسلمانوں نے اپنی پارلیمنٹ قائم کر لی اور ابراہیم روجودا کو اپنا صدر منتخب کر لیا لیکن اس انتخاب کو سربیا نے اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تسلیم نہ کیا۔ تب سے مسلمان ا پنی صفوں کو منظم کرتے ہوئے سربوں کے ظلم اور استبداد کے خلاف برسرِپیکار ہیں۔ دوسری طرف کوسووو کے مسلمانوں پر سربوں کے مظالم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
08-07
08-07
08-07
08-07
08-07
08-07
08-07
08-05
08-05
08-05