فرنٹ پیج سلامتی بخش زندگی کی روشنی ٹیکنالوجی آنلاین مالی چانال جرانیلیسم

حرام کی لت چھوڑنا بہت مشکل ہو تا ہے،سچے اور درویش لوگ حق بات کسی کے سامنے بھی کہہ سکتے ہیں، دکھ اس بات کا ہے کہ ایسے لوگ اب ناپید ہو چکے ہیں 

2025-05-26 IDOPRESS

مصنف:شہزاد احمد حمید


قسط:178


منہ کو لگا خون؛


ڈی سی نے کیا سوچ بدلنی تھی۔ کہتے ہیں جب شیر یا چیتے کو انسانی خون لگ جائے وہ مرتے مر جائے گا لیکن انسانی خون سے دور نہیں رہ سکے گا۔اسی طرح حرام کی لت پڑ جائے تو اسے چھوڑنا بھی بہت مشکل ہو تا ہے۔ نہ ڈی سی کی تقریر بدلی، نہ عام آدمی کے مسائل اس کھلی کچہری سے حل ہوئے۔ اس واقعہ نے البتہ ڈی سی گجرات کی کچہری سے وقتی طور پر جان چھڑوا دی تھی۔سچے اور درویش لوگ حق بات کسی کے سامنے بھی کہہ سکتے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ایسے درویش اور سچے لوگ اب ناپید ہی ہو چکے ہیں۔


سر آپ مغرور ہیں؛


بات یونین کونسلوں کے دوروں سے ہوتی کہاں نکل گئی ہے۔ یونین کونسلوں کے دوروں سے دو فائدے ہوئے۔ پہلا تمام یونین کونسلوں کا ریکارڈ اپ ڈیٹ ہو گیا۔ میں ان دوروں کی رپورٹ اپنے سے بڑے دفاتر بھیجتا اور میٹنگ میں میری کوشش کو میرے افسر ا سہراتے اور دوسرے کولیگز کو بھی ایسا کرنے کا کہتے تھے۔ مجھے یہ اچھا لگتا اور شاید نوجوان افسر اور بوڑھے افسروں میں یہی فرق ہوتا ہے کہ نوجوان اپنی نوکری کے آ غاز میں زیادہ پر جوش ہوتے ہیں، چند سال میں صرف جوش رہ جاتا ہے اور پھر پرانوں کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں اور رہا سہا جوش بھی ختم ہو جاتا ہے۔ میری کوشش سے یونین کونسلوں کے سالانہ بجٹ میں ان کی آمدنی بھی بڑھنے لگی تھی۔ دوسرا میرا چائے سے انکار کرنا چھوٹ گیا۔ و جہ یہ بنی۔ ایک روزلالہ نذر آیا اور کہنے لگے؛”سر! لوگ آپ کو مغرور سمجھنے لگے ہیں۔“ میں نے حیران ہو کر پوچھا؛”لالہ! میں تو ہر آنے جانے والے سے محبت سے پیش آ تا ہوں ان سے چائے پانی پوچھتا ہوں۔ یہ ان کی سرا سر غلط فہمی ہے۔“ وہ کہنے لگا؛”سر! آپ لوگوں سے چائے پانی تو پوچھتے ہیں مگر جب وہ آپ سے پوچھتے ہیں تو آپ انکار کر دیتے ہیں۔ لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو مغرور ہیں۔ دوسرا سر آپ تو چائے نہیں پیتے لیکن مجھے تو چائے کی طلب رہتی ہے۔“میں مسکرایا اور کہا؛”لالہ! آج کے بعد ہم چائے ضرور پئیں گے تاکہ نہ لوگ مجھے مغرور سمجھیں اور نہ آپ کی چائے ماری جائے۔“مجھے یقین ہے اس منطق کے پیچھے لوگوں کی ناراضگی کم اور لالہ کی چائے کی طلب زیادہ تھی۔اب ہم جہاں بھی جاتے چائے ضرور پیتے تھے جو اکثر پر تکلف ہی ہوتی تھی۔


چائے نہ پینے کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ اگر چائے وغیرہ پینے لگا تو پھر ایمانداری سے معائینہ رپورٹ لکھنا مشکل ہو گا کہ چائے بھی پی اور نقائص کا بھی لکھ گیا۔ یہ بھی درست تھا کہ میں چائے کا شوقین نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہوں اور تیسرا چائے پینے سے وقت کا ضیاع بھی ہو تا۔


جاری ہے)


نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈس کلیمر: اس مضمون کو دوبارہ پرنٹ کرنے کا مقصد مزید معلومات فراہم کرنا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ویب سائٹ اس کے خیالات سے متفق ہے اور نہ ہی یہ کوئی قانونی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ اس سائٹ پر موجود تمام وسائل انٹرنیٹ سے جمع کیے گئے ہیں اور صرف سیکھنے اور حوالہ دینے کے لیے شیئر کیے گئے ہیں اگر کوئی کاپی رائٹ یا دانشورانہ املاک کی خلاف ورزی ہو تو براہ کرم ہمیں ایک پیغام دیں۔

سب سے نیا

لنکس:
ٹیکنالوجی فرنٹیئر      ہم سے رابطہ کریں   SiteMap