2025-06-04 IDOPRESS
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:187
این سی آر ڈی میں پہلی ٹریننگ کے بعد بھی کئی دفعہ تربیتی کورس کے لئے آیا۔ ہفتے بھر کا یہ تربیتی کورس دراصل ہفتہ بھر کی تفریح ہی ہوتی تھی۔ چوہدری ظہور صاحب بطور ڈائریکٹر ریسرچ یہاں جوائن کر چکے تھے۔ ڈائریکٹر(ایڈمن)چوہدری اسرارالحق صاحب(چند سال پہلے یہ انسان دوست اور مخلص شخص دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔آمین۔) بھائی جان بو بی کے اچھے دوست تھے ان سے بھی اچھی شناسائی ہو گئی۔ تربیت کے دوران ایک دن کی چھٹی مار کر بھائی جان شہزاد کے ساتھ مری کا چکر لگا لیتا جہاں پنڈی پوائنٹ پر نئیر علی دادا کا ڈیزائین کردہ ان کا گھر اُس دور میں مری کی سب سے شاندار رہائشوں میں سے ایک تھا۔
حالات بدلے تو سب رشتے بھی بدلے؛
اب حالات بدل گئے تھے۔ والد کا اپنا گھر تھا، موٹر تھی،ٹوبہ کی زمین پر لگایا باغ پھل دینے لگا تھا، پیسے تھے اور میں سرکار کی ملازمت میں آچکا تھا۔ والدسے ان کے خون کے رشتوں نے پھر سے ملنا شروع کر دیا تھا۔ والد نے کبھی بھی ان کی بے ثباتی کا ان سے ذکر تک نہ کیا اور نہ ہی ان کے اجنبی روئیے کی شکایت کی تھی۔
میں نے یہ سات دن اسلام آباد میں بڑی شان اور آرام میں گزارے۔ بھائی جان شہزاد کے چھوٹے برادر نسبتی رائس انسٹیٹیوٹ میں ڈائریکٹر تھے۔ یہ ادارہ این سی آر ڈی کے بالمقابل تھا۔ روز صبح ان کے ساتھ جاتا اور بعد دوپہر ویگن میں واپس ایف سیون ٹو پہنچ جاتا تھا۔ بھائی جان کے ساتھ میری دوستی بھی گہری تھی۔ اس کی وجہ ان کی اپنے ماموں یعنی ابا جی سے محبت تھی۔مجھ سے پیار اور محبت کرکے شاید وہ بیتے دنوں کا قرض اتاررہے تھے۔ روزانہ ہماری شام کو بیٹھک شروع ہوتی جو رات گئے تک جاری رہتی تھی۔ ان کے دونوں بیٹوں فیصل اور کاشف(اب دونوں ہی امریکہ میں ہیں اور عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے) سے بھی میری بہت دوستی تھی۔ خیر پور ضلع کونسل کے چیئر مین ضلع اور غالباً ضلع کونسل جیکب آباد کے وائس چیرمین اس ٹریننگ میں شامل تھے۔ وہ دونوں بوڑھے سندھی میری ایک پری زنٹیشن جس میں میں نے بھٹو صاحب کو خراج تحسین پیش کیا تھا، مجھ سے چھوٹے بھائیوں کی طرح محبت کرنے لگے تھے۔23 اکتوبر کو ٹریننگ ختم ہوئی اور اسی شام مجھے ریل کار کے اے سی پارلر(اس زمانے میں یہ ٹکٹ نوے(90) روپے کا تھا) سے لاہور روانہ ہو ناتھا۔ بھائی جان نے میرا ٹکٹ منسوخ کروایا مجھے 2دن کے لئے اپنے پاس اور روک لیا اور کہنے لگے؛”دلہا میاں ریل سے نہیں بلکہ ہوائی جہاز کے فرسٹ کلاس سے لاہور جائیں گے اور یہ شادی پر میری طرف سے گفٹ ہو گا۔“ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں۔ساتھ انہوں نے سلامی کے 5 ہزار روپے دئیے۔ اُس زمانے میں میری ماہانہ تنخواہ سے بھی یہ رقم دگنی سے بھی زیادہ تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
07-25
07-25
07-25
07-25
07-25
07-25
07-25
07-25
07-25
07-25